Follow us

Wednesday, 30 December 2015

Holy Prophet Muhammad ﷺ Character Needs and our Neglect and Twisted Judgment


سیرت رسول اکرم ﷺ کی ضرورت اور ہماری غفلت و کج فہمی
Hazrat Muhammad ﷺ

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اﷲ تعالیٰ نے انسانیت کے لئے ہدایت کا آخری سرچشمہ بنا کر بھیجا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت اور بعثت ایک نئے دور کا آغاز اور تاریخ کی ایک نئی جہت کا تعین تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اگر ہم تاریخ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پہلے اور بعد کے زمانوں کا تقابل کریں تو ہم دیکھتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تشریف آوری کے بعد انسانیت کلیتاً ایک نئے دور میں داخل ہو گئی۔ ایک ایسا دور جس میں شعور، آگہی، تہذیب، کلچر اور اعلیٰ انسانی اقدار کے فروغ، قیام اور استحکام کے وہ نظائر ملتے ہیں جن کا نہ صرف آپ کی آمد سے قبل وجود نہ تھا بلکہ اُن کا تصور بھی مفقود تھا۔ یہ سب ختمِ نبوت کا وہ ازلی اور ابدی فیضان تھا جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ مبارکہ کے ذریعے عالم انسانیت میں جاری و ساری ہوا۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت کے حوالے سے رہنمائی اور اخذ فیض کے جو مناہج بطور امت ہمیں اپنانے چاہیے تھے وہ اپنائے نہ جا سکے۔ ملتِ اسلامیہ جب ایک ہزار سال تک دُنیا بھر میں مقتدر رہنے کے بعد زوال کا شکار ہونا شروع ہوئی تو جہاں زندگی کے دیگر شعبے زوال اور پستی کاشکار ہوئے وہاں دین کے مختلف شعبوں خصوصاً سیرت الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہمارے تعلق اور فہم کے حوالے سے بھی زوال کے آثار نمایاں ہونے لگے۔ سیرت کے ساتھ تعلق کے باب میں زوال کے اثرات پچھلی دو تین صدیوں میں سامنے آئے۔ ان میں نمایاں ترین پہلو اُمت مسلمہ کا قلبی اور عملی طور پر سیرت سے ہٹ جانا اور فکری سطح پر سیرت الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حقیقی فہم سے عاری ہونا ہے۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ نہ صرف ملتِ اسلامیہ کی اپنی انفرادی، اجتماعی، قومی اور بین الاقوامی زندگی میں سیرت کا فیضان کما حقہ جاری نہ رہا بلکہ عالمی سطح پر اُمت اجابت تک بھی سیرت اور اِسلام کا پیغام کما حقہ نہ پہنچایا جا سکا۔
اِسلام کی تعلیمات اور سیرت کے ساتھ عملی اور زندہ تعلق کے کٹ جانے سے ملتِ اِسلامیہ کی ہئیت اجتماعی پر درج ذیل اثرات مرتب ہوئے :
ملتِ اِسلامیہ کے عقائد اوہام میں بدل گئے اور اعمال مجرد رسموں میں ڈھل گئے جس کی وجہ سے ان کی زندگی میں عقائد اور اعمال کی تاثیر ختم ہو گئی۔
عالمِ اِسلام کے زوال پر معاشرے میں مذہبی اور روحانی اقدار بتدریج زوال کا شکار ہوتی چلی گئیں۔
اس زوال پذیری کا نتیجہ یہ نکلا کہ مسلم معاشرے میں ایمانی حقائق اور روحانی اقدار کی جگہ مادہ پرستی اور مادی فکر نے لے لی۔
مذہب سماجی زندگی سے کلیتاً کٹ گیا اور دُنیا کی زندگی کی بجائے صرف آخرت کی زندگی کا مسئلہ ہو کر رہ گیا۔ لہٰذا اعمال کی انجام دہی کا مقصد دُنیا کی زندگی کی ہمہ گیر اصلاح کے بجائے محض آخرت میں ثواب اور جنت کا حصول رہ گیا۔
ایمان، عقیدہ اور اسلام کے بنیادی تصورات کے مسخ ہو جانے کے سبب سے عملی زندگی میں اسلام کے مؤثر ہونے کا تصور دھندلا ہوتا چلا گیا اور نسلِ نو مستقبل کے حوالے سے اسلام کے مؤثر اور قابلِ عمل ہونے سے مایوس ہونے لگی۔
دورِ زوال میں جب ہر طرف باطل کے غلبے کا منظر نظر آنے لگا تو اہلِ اسلام میں اسلام کی حتمی اور قطعی نتیجہ خیزی کا یقین ختم ہو گیا اور وہ باطل کے مقابلے میں اسلام کے دوبارہ احیاء، فروغ اور اس کے غلبے کی بحالی کے بارے میں متشکک و متزلزل ہوتے چلے گئے۔
مسلمانوں کا مستقبل میں اپنے احیاء کی نسبت اعتماد کلیتاً ختم ہو گیا۔
ایمان اور اسلام کے بطور مؤثر عنصر حیات کی تاثیر کم ہو جانے کے سبب سے اسلام کی وحدت کا شیرازہ جغرافیائی، نسلی، لسانی، طبقاتی، گروہی اور فرقہ وارانہ وفاداریوں کا شکار ہو کر منتشر ہو گیا۔
اسلام کے مذہبی، سیاسی، معاشی، ثقافتی اور تعلیمی ادارے جو سرا سر تخلیق اور انقلاب کے آئینہ دار تھے کلیتاً جمود کی لپیٹ میں آ گئے۔
اندریں حالات اہل اسلام، اسلام کے عالمگیر غلبہ و تمکن کی خاطر مثبت انقلابی پیش قدمی کی بجائے اپنی حفاظت اور دفاع کو ہی اصل زندگی اور آخری مطمع نظرتصور کرنے لگے۔
ان تمام خرابیوں کے ازالے کی جدوجہد سے قبل لازم ہے کہ ان خرابیوں کے پیدا ہونے کی بنیاد اوراسباب کا کھوج لگایا جائے۔ ملتِ اسلامیہ کے سیرت سے تعلق کے حوالے سے انفرادی اور اجتماعی زندگی میں مذکورہ بالا خرابیوں کے بنیادی اسباب یہ ہیں :
عالم اسلام میں سیرت الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ادھورا فہم
غیر اسلامی دنیا میں سیرت کے فہم اور ابلاغ میں درپیش چیلنجز
1۔ عالمِ اِسلام میں سیرۃُ الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ادھورا فہم
آج عالم اسلام سیرت سے تعلق کے باب میں جن چیلنجز سے دو چار ہے وہ درج ذیل نوعیت کے ہیں :
سیرت کے روحانی وحبی پہلو سے صرف نظر
سیرت کے فیضان اور تاثیر سے زندگی کے اعمال و اقدار کی محرومی
سیرت کے فکری و تعلیماتی پہلو سے اجتماعی زندگی کی لاتعلقی
ان شاء اللہ جلد ان موضوعات پر کچھ تفصیل پیش کی جائی گی


 Author :  Dr. Faiz Ahmad Chishti

Saturday, 26 December 2015

kalam-e-AlaHazrat wo kamal-e-Husn-e-Hazoor hai

Wo Kamaal-e-Husn-e-Huzoor Hay Kay Gumaan-e-Naqs Jahaan Naheen
Yay-hee Phool Khaar Say Duur Hay Yay-hee Sham’a Hai Kay Dhu-aan Naheen

Do Jahan Ki Behtariyan Nahi Ke Amaniye Dilo Jaan Nahi
Kaho Kya Hain Wo Jo Yaha Nahi Magar Ik Nahi Ki Wo Haan Nahi

BaKhuda Khuda Ka Yay-hee Hay Darr Nahin Aur Koi Maffar Maqqar
Joe Wahaan Say Ho Yaheen Aakay Ho Joe Yahaan Naheen Tou Wahan Naheen

Main Nisaar Tere Kalaam Par Mili Yun To Kisi Ko Zabaan Nahi
Wo Sikhan Hai Jisme Sukhan Na Ho wo Bayaan Hain Jiska Bayaan Nahi


Hain Unhi Ke Noor Se Sab Ayaan Hain Unhi Ke Jalwo Me Sab Nihaan
Bane Subha Taabishe Mehar Se Rahe Peshe Mehar Yeh Jaan Nahi


Wahi Noor E Haq Wahi Jille Rab Hain Unhi Se Sab Hain Unhi Ka Sab
Nahi Unki Milk Mein Aasmaan Ki Jameen Nahi Ki Jamaan Nahi


Teyray Aagay Youn Hayn Dabbay Lachay Fu-saha A’rab Kay Barray Barray
Ko-ee Jaanay Muh Mayn Zubaan Naheen Naheen Balkay Jism Mein Jaan Naheen

Wo-hee Noor-e-Haq Wo-hee  Zillay Rub Hai Unhee Say Sub Hai Unhee Ka Sub
Naheen Unkee Milk Meyn Aasmaan Ke Zameen Nahin Ke Zamaan Naheen

Wo-hee Laa Makaan Kay Makeen Huay Sar-e-‘Arsh Takht Nasheen Huay
Wo Nabee Hai Jiss Kay Hain Yay Makaan Wo Khuda Hai Jiss Ka Makaan Naheen

Sar-e-‘Arsh Per Hai Teree Guzar Dil-e-Farsh Per Hai Teree Nazar
Malakoot-o-Mulk Mayn Ko-ee Shay Naheen Wo Tujh Pay A’yaan Naheen

Karoon Teray Naam Pay Jaan Fida Na Buss Aik Jaan Dou Jahaan Fida
Dou Jahaan Say Bhee Naheen Jee Bharaa Karoon Kiya Karoroon Jahaan Naheen

Karoon Madhay Ahle-e-Doel Raza Parray Iss Bala Meyn Meyree Balaa

Meyn Gada Hoon Apnay Kareem Ka Meyra Deen Paara-e-Naan Nahee

Hazrat Abdullah Bin Umar cried Ya Rasoolallahﷺ

حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پکارا یا رسول اللہ ﷺ
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
حضرت سیدنا عبدالرحمٰن بن سعد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اﷲ عنہما کی مجلس میں بیٹھا تھا کہ ان کاپاؤں سُن ہو گیا، میں نے تجویز پیش کی :
أذکر أحب الناس إليک، فقال : يا محمداه، فانتشرتْ.
جو ہستی آپ کو سب سے زیادہ محبوب ہے اُس کا نام لیجئے۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اﷲ عنہما نے (آقا علیہ السلام کو پکارتے ہوئے) کہا : اے محمد، صلی اﷲ علیک وسلم! مدد فرمائیے۔ دوسرے ہی لمحے ان کا پاؤں ٹھیک ہو چکا تھا۔
قاضي عياض، الشفاء، 2 : 218
بخاري، الأدب المفرد، 1 : 335، رقم حديث : 3964
ابن جعد، المسند، 1 : 369، رقم : 42539
ابن سعد، الطبقات الکبري، 4 : 5154
مناوي، فيض القدير، 1 : 6399
مزي، تهذيب الکمال، 17 : 142


Love Of Hazrat Anas رضی اللہ عنہ with Hazrat Muhammad ﷺ

حضرت انس رضی اللہ عنہ کا جذبۂ حُبّ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اسیرانِ حُسنِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں خادمِ رسالت مآب حضرت انس رضی اللہ عنہ بھی صفِ اوّل میں کھڑے نظر آتے ہیں۔ آپ رضی اللہ عنہ نے آنکھ کھولی تو گھر کی فضا کو اللہ اور اُس کے محبوب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تذکارِ جمیل سے معمور پایا، گھر کا ہر فرد جاں نثارِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تھا۔ حبِّ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اُنہیں وراثت میں ملی تھی، دس سال تک حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت پر بھی مامور رہے، پیغمبرِانسانیت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت و کردار سے اتنے متاثر ہوئے کہ ہر وقت عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی فضائے کیف و سرور میں گم رہتے۔ جب تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وصال ہوا تو حضرت انس رضی اللہ عنہ پر بھی قیامت ٹوٹ پڑی۔ جس شفیق ہستی کا ایک لمحہ کے لئے بھی آنکھوں سے اوجھل ہونا دل پر شاق گزرتا تھا، اس عظیم ہستی کی یاد میں آنکھیں اشکبار رہتیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تبرکات کی زیارت کرتے تو دل کو اطمینان ہوتا۔ ذکرِ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محفل سجاتے، خود بھی تڑپتے اور دوسروں کو بھی تڑپاتے۔
ایک مرتبہ حضرت انس رضی اللہ عنہ تاجدارِ کائنات حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حلیہ مبارک بیان فرما رہے تھے، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حسن و جمال کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمانے لگے :
ولا مَسِسْتُ خزّة ولا حريرَة الين من کف رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم، و لا شَمِمْتُ مسکة و لا عبيرة أطيب رائحة من رائحة رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم.
بخاري، الصحيح، 2 : 696، کتاب الصوم، رقم : 21872
مسلم، الصحيح، 4 : 1814، کتاب الفضائل، رقم : 32330
احمد بن حنبل، المسند، 3 : 4107
ابن حبان، الصحيح، 14 : 211، رقم : 56303
دارمي، السنن، 1 : 45، رقم : 61
’’اور میں نے آج تک کسی دیبا اور ریشم کو مَس نہیں کیا جو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہتھیلی سے زیادہ نرم ہو اور نہ کہیں ایسی خوشبو سونگھی جو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جسمِ اَطہر کی خوشبو سے بڑھ کر ہو۔‘‘(چشتی)
حضرت انس رضی اللہ عنہ کو اکثر خواب میں حضور علیہ السلام کی زیارت نصیب ہوتی۔ مثنی بن سعید روایت کرتے ہیں کہ میں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ کویہ کہتے سنا :
ما من ليلة إلاّ وأنا أري فيها حبيبي، ثم يبکي.
ابن سعد، الطبقات الکبري، 7 : 220
ذهبي، سير أعلام النبلاء، 3 : 403
’’(آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے بعد) کوئی ایک رات بھی ایسی نہیں گذری جس میں میں اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت نہ کرتا ہوں۔ یہ کہہ کر آپ رضی اللہ عنہ زار و قطار رونے لگے۔

Wednesday, 9 December 2015

Tuesday, 8 December 2015

Sunday, 6 December 2015

Share

Twitter Delicious Facebook Digg Stumbleupon Favorites More