حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اﷲ تعالیٰ نے انسانیت کے
لئے ہدایت کا آخری سرچشمہ بنا کر بھیجا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی
ولادت اور بعثت ایک نئے دور کا آغاز اور تاریخ کی ایک نئی جہت کا تعین تھا۔ یہی
وجہ ہے کہ اگر ہم تاریخ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پہلے اور بعد کے زمانوں
کا تقابل کریں تو ہم دیکھتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تشریف آوری کے
بعد انسانیت کلیتاً ایک نئے دور میں داخل ہو گئی۔ ایک ایسا دور جس میں شعور، آگہی،
تہذیب، کلچر اور اعلیٰ انسانی اقدار کے فروغ، قیام اور استحکام کے وہ نظائر ملتے
ہیں جن کا نہ صرف آپ کی آمد سے قبل وجود نہ تھا بلکہ اُن کا تصور بھی مفقود تھا۔
یہ سب ختمِ نبوت کا وہ ازلی اور ابدی فیضان تھا جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی
بعثت کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ مبارکہ کے ذریعے عالم انسانیت میں
جاری و ساری ہوا۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت کے حوالے سے رہنمائی
اور اخذ فیض کے جو مناہج بطور امت ہمیں اپنانے چاہیے تھے وہ اپنائے نہ جا سکے۔
ملتِ اسلامیہ جب ایک ہزار سال تک دُنیا بھر میں مقتدر رہنے کے بعد زوال کا شکار
ہونا شروع ہوئی تو جہاں زندگی کے دیگر شعبے زوال اور پستی کاشکار ہوئے وہاں دین کے
مختلف شعبوں خصوصاً سیرت الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہمارے تعلق اور
فہم کے حوالے سے بھی زوال کے آثار نمایاں ہونے لگے۔ سیرت کے ساتھ تعلق کے باب میں
زوال کے اثرات پچھلی دو تین صدیوں میں سامنے آئے۔ ان میں نمایاں ترین پہلو اُمت
مسلمہ کا قلبی اور عملی طور پر سیرت سے ہٹ جانا اور فکری سطح پر سیرت الرسول صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حقیقی فہم سے عاری ہونا ہے۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ نہ صرف
ملتِ اسلامیہ کی اپنی انفرادی، اجتماعی، قومی اور بین الاقوامی زندگی میں سیرت کا
فیضان کما حقہ جاری نہ رہا بلکہ عالمی سطح پر اُمت اجابت تک بھی سیرت اور اِسلام
کا پیغام کما حقہ نہ پہنچایا جا سکا۔
اِسلام کی تعلیمات اور سیرت کے ساتھ عملی اور زندہ تعلق کے کٹ جانے
سے ملتِ اِسلامیہ کی ہئیت اجتماعی پر درج ذیل اثرات مرتب ہوئے :
ملتِ اِسلامیہ کے عقائد اوہام میں بدل گئے اور اعمال مجرد رسموں
میں ڈھل گئے جس کی وجہ سے ان کی زندگی میں عقائد اور اعمال کی تاثیر ختم ہو گئی۔
عالمِ اِسلام کے زوال پر معاشرے میں مذہبی اور روحانی اقدار بتدریج
زوال کا شکار ہوتی چلی گئیں۔
اس زوال پذیری کا نتیجہ یہ نکلا کہ مسلم معاشرے میں ایمانی حقائق
اور روحانی اقدار کی جگہ مادہ پرستی اور مادی فکر نے لے لی۔
مذہب سماجی زندگی سے کلیتاً کٹ گیا اور دُنیا کی زندگی کی بجائے
صرف آخرت کی زندگی کا مسئلہ ہو کر رہ گیا۔ لہٰذا اعمال کی انجام دہی کا مقصد دُنیا
کی زندگی کی ہمہ گیر اصلاح کے بجائے محض آخرت میں ثواب اور جنت کا حصول رہ گیا۔
ایمان، عقیدہ اور اسلام کے بنیادی تصورات کے مسخ ہو جانے کے سبب سے
عملی زندگی میں اسلام کے مؤثر ہونے کا تصور دھندلا ہوتا چلا گیا اور نسلِ نو
مستقبل کے حوالے سے اسلام کے مؤثر اور قابلِ عمل ہونے سے مایوس ہونے لگی۔
دورِ زوال میں جب ہر طرف باطل کے غلبے کا منظر نظر آنے لگا تو اہلِ
اسلام میں اسلام کی حتمی اور قطعی نتیجہ خیزی کا یقین ختم ہو گیا اور وہ باطل کے
مقابلے میں اسلام کے دوبارہ احیاء، فروغ اور اس کے غلبے کی بحالی کے بارے میں
متشکک و متزلزل ہوتے چلے گئے۔
مسلمانوں کا مستقبل میں اپنے احیاء کی نسبت اعتماد کلیتاً ختم ہو
گیا۔
ایمان اور اسلام کے بطور مؤثر عنصر حیات کی تاثیر کم ہو جانے کے
سبب سے اسلام کی وحدت کا شیرازہ جغرافیائی، نسلی، لسانی، طبقاتی، گروہی اور فرقہ
وارانہ وفاداریوں کا شکار ہو کر منتشر ہو گیا۔
اسلام کے مذہبی، سیاسی، معاشی، ثقافتی اور تعلیمی ادارے جو سرا سر
تخلیق اور انقلاب کے آئینہ دار تھے کلیتاً جمود کی لپیٹ میں آ گئے۔
اندریں حالات اہل اسلام، اسلام کے عالمگیر غلبہ و تمکن کی خاطر
مثبت انقلابی پیش قدمی کی بجائے اپنی حفاظت اور دفاع کو ہی اصل زندگی اور آخری
مطمع نظرتصور کرنے لگے۔
ان تمام خرابیوں کے ازالے کی جدوجہد سے قبل لازم ہے کہ ان خرابیوں
کے پیدا ہونے کی بنیاد اوراسباب کا کھوج لگایا جائے۔ ملتِ اسلامیہ کے سیرت سے تعلق
کے حوالے سے انفرادی اور اجتماعی زندگی میں مذکورہ بالا خرابیوں کے بنیادی اسباب
یہ ہیں :
عالم اسلام میں سیرت الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ادھورا فہم
غیر اسلامی دنیا میں سیرت کے فہم اور ابلاغ میں درپیش چیلنجز
1۔ عالمِ اِسلام میں
سیرۃُ الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ادھورا فہم
آج عالم اسلام سیرت سے تعلق کے باب میں جن چیلنجز سے دو چار ہے وہ
درج ذیل نوعیت کے ہیں :
سیرت کے روحانی وحبی پہلو سے صرف نظر
سیرت کے فیضان اور تاثیر سے زندگی کے اعمال و اقدار کی محرومی
سیرت کے فکری و تعلیماتی پہلو سے اجتماعی زندگی کی لاتعلقی
ان شاء اللہ جلد ان موضوعات پر کچھ تفصیل پیش کی جائی گی
Author : Dr. Faiz Ahmad Chishti
0 comments:
Post a Comment