حضرت سیدنا ابو دَرداء رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ، بے شک انبیاء علیھم الصلٰوۃوالسلام زمین کے اَوتادتھے
جب سلسلہ نبوت ختم ہوا تو اللہ تعالیٰ نے امت احمد ﷺ مین سے ایک قوم کو ان کا نائب
بنایا جنہیں ابدال کہتے ہیں ، وہ حضرات (فقط) روزہ و نماز اور تسبیح و تقدیس
میں کثرت کی وجہ سے لوگوں سے افضل نہیں
ہوئے بلکہ اپنے حُسنِ اخلاق ، وَرْع و تقویٰ کی سچائی ، نیت کی اچھائی ،تمام
مسلمانوں سے اپنے سینے کی سلامتی ،اللہ عزوجل کی رِضا کے لیے حِلم ،صَبْر اور
دانِشمندی ، بغیر کمزوری کے عاجزی اور تمام مسلمانوں کی خیر خواہی کی وجہ سے افضل
ہوئے ہیں ۔پس وہ انبیاء علیھم
الصلٰوۃ والسلام کے
نائب ہیں ۔وہ ایسی قوم ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنی ذات پاک کے لیے منتخب اور
اپنے عِلم و رِضا کے لیے خاص کر لیا ہے ۔
وہ 40 صدیق
ہیں ، جن میں سے 30 رحمٰن عزوجل کے خلیل حضرت سیدنا ابراہیم علی نبینا و علیہ
الصلٰوۃ والسلام کے یقین کی مثل ہیں ان کے
ذریوے (وسیلے ) سے اہلِ زمین سے بلائیں اور لوگوں
سے مصیبتیں دُور ہوتی ہیں ان کے ذریعے (وسیلے ) سے ہی بارش ہوتی اور رزق دیا جاتا ہے ۔ ان میں سے کوئی اُسی وقت
فوت ہوتا ہے جب اللہ تعالیٰ اس کی جانشینی کے لیے کسی کو پروانہ دے چکا ہوتا ہے ۔
وہ کسی پے لعنت نہیں بھیجتے ، اپنے ماتحتوں
کو اذیت نہیں دیتے ،اُن پر دست درازی نہیں کرتے ، اُنہیں حقیر نہیں جانتے ، خود پر
فوقیت رکھنے والوں سے حسد نہیں کرتے ، دنیا کی حرص نہیں کرتے ، دکھاوے کی خاموشی
اختیار نہیں کرتے ، تکبُر نہیں کرتے اور دکھاوے کی عاجزی بھی نہیں کرتے ۔
وہ بات کرنے میں تمام لوگوں سے اچھےاور نَفس کے اعِتبار سے
زیادہ پرہیزگار ،سخاوت ان کی فِطرت میں شامِل ہے ، اَسلاف نے جن (نامناسب ) چیزوں
کو چھوڑا اُن سے محفوظ رَہنا اِن کی صِفت
ہے اُن کی یہ صِفت جُدا نہیں ہوتی کہ آج
خشیت کی حالت میں ہوں اور کل غفلت میں پڑے ہوں بلکہ وہ اپنے حال پر
ہمیشگی اِختیار کرتے ہیں ،وہ اپنے
اور اپنے رب عزوجل کے درمیان ایک خاص تعلق
رکھتے ہیں ، انہیں آندھی والی ہوا اور بے باک گھوڑے نہیں پہنچ سکتے ، اُن کے دل
اللہ عزوجل کی خوشی (رضا ) اور شوق میں آسمان کی طرف بلند ہوتے ہیں، پھر (پارہ اٹھائیسواں ، سورۃ
المجادلہ کی ) یہ آیت (نمبر 22) تِلاوت فرمائی
ترجمہ کنزالایمان : یہ اللہ کی جماعت ہے
،سنتا ہے اللہ ہی کی جماعت کامیاب ہے
راوی کہتے ہیں کہ میں نے عرض کی : اے ابو دَرداء رضی اللہ عنہ ! جو کچھ آپ نے بیان فرمایا اس میں کون سی بات مجھ پر
بھاری ہے؟ مجھے کیسے معلوم ہو گا کہ میں نے اُسے پا لیا ؟ فرمایا : آپ اِس کے درمیانے دَرَجے میں اُس
وَقت پہنچیں گے جب دنیا سے بُغض رکھیں گے
اور جب دنیا سے بُغض رکھیں گے تو آخرت کی محبت اپنے قریب
پائیں گے اور آپ جتنا دُنیا سے زُہد (بے رغبتی ) اختیار کریں گے اُتنا ہی آپ کو
آخرت سے محبت ہو گی اور جتنا آپ آخرت
سے محبت کریں گے اُتنا ہی اپنے نَفع اور نقصان والی چیزوں کو دیکھیں گے ۔ (مزید
فرمایا ) جس بندے کی سچی طلب علمِ الٰہی عزوجل میں ہوتی ہے اس کو قَول و فعل کی دُرستی عطا فرما دیتا اور
اپنی حفاظت میں لے لیتا ہے ۔ اس کی تصدیق اللہ عزوجل کی کتاب (قرآن مجید ) میں موجود ہے پھر (پارہ چودھواں
سورۃُ الحنل کی ) یہ آیت (نمبر128)
تلاوت فرمائی
ترجمہ کنز الایمان : بے شک اللہ عزوجل ان کے
ساتھ ہے جو ڈرتے ہیں اور نیکیاں کرتے ہیں
(مزید فرمایا ) جب ہم نے اس (قرآن مجید ) میں دیکھا تو یہ
پایا کہ اللہ تعالیٰ کی محبت اور اس کی رضا کی طلب سے زیادہ لذت کسی شے میں حاصل
نہیں ہوتی۔
نہ پوچھ ان خِرقہ پوشوں کی عقیدت ہے تو دیکھ ان کو
یدِ بَیضاءلئے ہیں اپنی اپنی آستینوں میں
نہ پوچھ ان خِرقہ پوشوں کی عقیدت ہے تو دیکھ ان کو
یدِ بَیضاءلئے ہیں اپنی اپنی آستینوں میں
(نو
ادرُالاصول لِلحکیم الترمذی ، ص : 168)
(فیضا نِ سنت ، جلد : اول ، ص: 435)
(فیضا نِ سنت ، جلد : اول ، ص: 435)
0 comments:
Post a Comment